Posted by
Infinity Readers
- Get link
- Other Apps
والدہ نے دو روپے دیے
اور کہا دودھ منگوا کر کھیر بنا لو۔ میں نے گھر میں پڑے ہوۓ پرانے دیے اٹھاۓ۔ ان میں سے جلی ہوٸی رُوٸی اور تیل نکال کر پھینکا۔
انہیں دھو چمکا کر ان میں کھیر جما لی۔ شادی کی خبر میرے والد تک پہنچی۔ انہوں نے مجھے
بلایا اور کہا ”تمہیں گڑیا کے نکاح پر گواہوں کی ضرورت ہوگی۔ اگر کہو تو اپنے دوستوں
کو بلا لوں“۔ میری والدہ بھی سب بیویوں کی طرح شوہر کے دوستوں کے خلاف تھیں، اس
لیے وہ ایسے بہانے تلاش کیا کرتے تھے۔ مجھے گواہوں کی ضرورت والی بات تو سمجھ میں
نہیں آٸی نہ آج تک آ سکی ہے مگر
میں نے انہیں اجازت دے دی۔ میری گڑیا کی شادی مریم تاثیر کے گُڈے سے طے پاٸی تھی۔ گواہوں میں ڈاکٹر
تاثیر ، صُوفی غلام مصطفیٰ تبسم ، ڈاکٹر سیّد عبداللہ اور پطرس بخاری صاحب شامل
تھے۔ چار بجے شام مریم ایک جھلمل کرتا فراک پہن کر آٸی اور آکر یہ خوش خبری سناٸی، گڈے کی دونوں ٹانگیں بدتمیز بِلُو نے توڑ دیں ہیں۔ بلو ڈاکٹر تاثیر
کے صاحبزادے تھے جو اب سلمان تاثیر کہلاتے ہیں۔ اس کے بعد مریم نے خالص انگریزوں
کی طرح کندھے اچکاتے ہوۓ
کہا۔
یہ سن کر میں نے ایک دل
خراش چیخ ماری اور مریم کو دھکا دیا۔ لڑاٸی کی آوازیں باہر صحن میں بیٹھے ہوۓ مردوں تک جا پہنچیں۔ کیس پیش ہوا۔ سید عبداللہ نے کہا لیجیے عابد
صاحب برات حاضر دولہا غاٸب
، عابد صاحب قاٸد اعظم کے جانے کے بعد سے
پاکستان بھی تو ایسی ہی حالت سے گزر رہا ہے۔ یعنی برات حاضر دولہا غائب۔ سید صاحب کی
عادت تھی کہ وہ ایک جملے کو کٸی
کٸی مرتبہ دہرایا کرتے تھے۔
میں یہ سمجھی وہ مجھے چھیڑ رہے ہیں۔ میں نے زمین پر پچھاڑیں کھانا شروع کر دیں۔
خواتين و حضرات اتنے بڑے بڑے دانشور موجود مگر مسٸلہ ایسا گھمبیر تھا کہ کسی کے پاس کوٸی حل نہیں۔ دروازے پر گھنٹی ہوٸی۔ میرے بھاٸی
نے آکر کہا ”چاچا فیض آۓ
ہیں“۔ ”بس بس مسٸلہ حل ہو گیا“ صوفی تبسم
بولے، شبنم کی گڑیا کی شادی فیض سے کردی جاۓ۔ وہ ہم سب میں زیادہ قربانی دینے والا آدمی ہے۔ برات کا دولہا بننا
اسی کو زیب دیتا ہے۔ چنانچہ پرانے رسالوں کو کاٹ کر سہرا بنایا گیا اور فیض صاحب کے
سر پر سجا دیا گیا۔
انہوں نے دبی زبان میں
بہت دھیمے لہجے میں احتجاج بھی کیا کہ وہ ایک نظر اس گڑیا کو دیکھنا چاہتے ہیں جس
سے ان کی شادی ہو رہی ہے مگر صوفی صاحب نے انہیں ڈانٹا اور کہا فیض تم دوسروں کی
خوشی کے لیے کیا نہیں کیا کرتے۔ ایسی باتوں پر احتجاج نہیں کیا جاتا۔ فیض صاحب
تیار ہو گٸے۔ میں نے اس سے پہلے فیض
صاحب کو اپنے چاچا جی کے روپ میں دیکھا تھا مگر آج پہلی مرتبہ میں انہیں ان نگاہوں
سے دیکھا جن سے ایک ساس اپنے داماد کو دیکھتی ہے۔ مجھے وہ اچھے لگے۔ گڈو سے ،
پیارے سے ، شرماۓ ہوۓ شہزادے جیسے۔ نکاح ہو گیا۔
ان کی سفید براق کُرتے پاجامے پر خوب کھیر ملی گٸی۔ انہیں مہندی لگاٸی
گٸی۔ کاجل سے ان کے لباس کو
سیاہ داغوں سے بھر دیا گیا۔ فیض صاحب سب کچھ برداشت کرتے رہے اور ان کے چہرے پر ان
کی مخصوص گومتی مسکراہٹ سجی رہی۔ فیض صاحب کو دوسروں کی خوشی ہمیشہ عزیز تھی۔ شاید
اس لیے ان کی حیثیت ہمیشہ برات کے دولہا جیسی رہی ، مگر ٹھہریے ابھی شادی کا قصہ
باقی ہے۔ صوفی صاحب نے تجویز پیش کی شبنم اور اس کی گڑیا کو بخاری کی موٹر میں سیر
کراٸی جاۓ۔ اس وقت کار صرف بخاری
صاحب کے پاس ہوتی تھی ، باقی حضرات تانگوں میں یا پیدل آتے جاتے تھے۔ ڈاکٹر تاثیر ،
فیض صاحب ، صوفی صاحب اور میرے والد اور ظاہر ہے بخاری صاحب کے ہمراہ مجھے ایک پان
کی دکان پر لے گٸے۔ وہاں سب نے ایک ایک ٹھنڈی
بوتل پی اور ایک ایک پان کھایا۔ بِل تین روپے بنا۔ سب نے اپنی اپنی جیبوں میں ہاتھ
ڈالا۔ کسی کی جیب سے اٹھنی کسی کی جیب سے روپیہ نکلا۔ تین روپے پورے نہ ہو سکے۔ یہ
حضرات پان والے کو باور کروانے کی کوشش میں مصروف ہو گٸے کہ وہ بہت بڑے بڑے ادیب ہیں۔ بڑے آدمی ہیں۔ ایک نے کہا میں
اسلاميہ کالج کا پرنسپل ہوں۔ دوسرے نے کہا میں دیال سنگھ کالج تیسرے نے کہا میں
گورنمنٹ کالج کا، مگر پان والا نہیں مانا۔ طے یہ پایا کہ فیض صاحب کو پان والے کی
دکان پر یرغمال کے طور پر رکھ کر گھر سے پیسے لاٸے جاٸیں۔ فیض صاحب تیار ہو گٸے اور چپ چاپ دکان میں جاکر
بیٹھ گٸے۔
شبنم شکیل کی کتاب
”تقریب کچھ تو “ سے اقتباس
Comments
Post a Comment